برلن ( اکتوبر 15 , 2025) جرمنی میں لازمی فوجی خدمت دوبارہ شروع کرنے کے منصوبے پر حکمران جماعتوں کے درمیان آخری لمحات میں اختلافات اُبھر آئے، جس کے باعث یہ منصوبہ غیر یقینی صورتحال سے دوچار ہوگیا ہے۔منگل کی رات ایک پریس کانفرنس، جس میں مجوزہ قانون کے اعلان کا امکان تھا، اچانک منسوخ کر دی گئی۔ یہ قانون جمعرات کو پارلیمان میں پیش کیا جانا تھا۔
چانسلر فریڈرِش میرٹز نے کہا ہے کہ وہ جرمنی کو یورپ کی سب سے طاقتور روایتی فوج بنانا چاہتے ہیں، تاہم دفاعی وزیر بورِس پسٹوریئس نے منصوبے کو ’’سبوتاژ‘‘ کرنے کے الزامات کو مسترد کر دیا ہے۔سرد جنگ کے خاتمے کے بعد جرمنی کی فوج کو دہائیوں تک مناسب فنڈنگ نہیں ملی، مگر اب برلن حکومت دفاعی اخراجات اور افرادی قوت میں اضافہ کرنے کے لیے کوشاں ہے۔ نیٹو اتحادیوں کو انتباہ دیا گیا ہے کہ آئندہ چار برسوں میں روس کی جانب سے ممکنہ حملے کے خدشات کو نظرانداز نہ کیا جائے۔
فوجی خدمت کا معاملہ جرمنی میں اب بھی ایک حساس سیاسی موضوع ہے۔ ملک کی ایک بڑی آبادی لازمی بھرتی اور دوبارہ ہتھیاروں کے فروغ کے معاملے پر تاریخی خدشات رکھتی ہے، کیونکہ بیسویں صدی میں عسکریت پسندی کے تباہ کن نتائج سامنے آ چکے ہیں۔
اس کے باوجود حالیہ فورسا سروے کے مطابق 54 فیصد شہری لازمی فوجی خدمت کے حق میں جبکہ 41 فیصد اس کے مخالف ہیں۔ نوجوانوں (18 سے 29 سال) میں مخالفت کی شرح 63 فیصد تک ہے۔حکومت کا ہدف ہے کہ 2035 تک فعال فوجیوں کی تعداد کو 1,83,000 سے بڑھا کر 2,60,000 کیا جائے، جبکہ 2,00,000 ریزروسٹ فوجیوں کو بھی شامل کیا جائے۔گرمیوں میں اعلان کردہ مسودے کے مطابق، 18 سالہ نوجوانوں کو ایک آن لائن فارم پُر کرنا ہوگا، جس میں ان کی پس منظر کی معلومات اور کم از کم چھ ماہ خدمت کرنے کی آمادگی پوچھی جائے گی۔ مردوں کے لیے فارم لازمی جبکہ خواتین کے لیے اختیاری ہوگا۔
حکومت، جو میرٹز کی قدامت پسند جماعت CDU/CSU اور مرکز کی بائیں بازو جماعت SPD پر مشتمل ہے، نے اپنے اتحادی معاہدے میں فوجی خدمت کی ’’ابتدائی طور پر رضاکارانہ‘‘ بحالی پر اتفاق کیا تھا۔ تاہم CDU رہنماؤں نے خدشہ ظاہر کیا ہے کہ صرف رضاکارانہ نظام سے مطلوبہ اہداف حاصل نہیں ہو پائیں گے۔
رپورٹس کے مطابق، دونوں جماعتوں کے مذاکرات کاروں نے ایک پیچیدہ سمجھوتہ تیار کیا تھا جس میں مرحلہ وار بھرتی کا نظام شامل تھا۔ اگر رضاکاروں کی تعداد ناکافی رہتی، تو ممکنہ طور پر قرعہ اندازی کے ذریعے کچھ نوجوانوں کو لازمی خدمت کے لیے منتخب کیا جا سکتا تھا۔
لیکن SPD کے اندر لازمی بھرتی کے کسی بھی تصور کی مخالفت موجود ہے۔ دفاعی وزیر بورِس پسٹوریئس ایک مضبوط فوج کے حامی ضرور ہیں، مگر ان کا کہنا ہے کہ موجودہ منصوبے عملی طور پر ممکن نہیں۔ ان کی تجویز ہے کہ جولائی 2027 سے تمام اہل نوجوانوں کا طبی معائنہ کیا جائے تاکہ فوج کے پاس دستیاب افرادی قوت کا واضح اندازہ ہو۔
انہوں نے اس سیاسی تعطل کو معمولی قرار دیتے ہوئے کہا کہ ’’نیا قانون بروقت تیار کر لیا جائے گا تاکہ اگلے سال سے اس پر عمل درآمد ممکن ہو‘‘۔فی الحال ان کی رضاکارانہ بھرتی پر مبنی تجاویز جمعرات کو پارلیمان میں پیش کیے جانے کی توقع ہے، تاہم اس پر سخت بحث متوقع ہے۔
وزارتِ دفاع کو اپنے وسیع تر عسکری منصوبوں کے مطابق بنیادی ڈھانچہ تیار کرنے کے لیے ایک بڑا انتظامی چیلنج درپیش ہے۔
واضح رہے کہ جرمنی میں لازمی فوجی خدمت 2011 میں معطل کر دی گئی تھی، جب نوجوان مردوں کو فوج میں شامل ہونے یا متبادل کے طور پر سماجی خدمت انجام دینے کا اختیار حاصل تھا۔
