0

خیبر پختونخوا کی سیاست ایک نئے موڑ پر — پی ٹی آئی کی اندرونی تبدیلیاں اور عوامی توقعات

خیبر پختونخوا کی سیاسی فضا ایک بار پھر غیر معمولی ہلچل کا شکار ہے۔ پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) نے صوبے میں قیادت کی تبدیلی کا فیصلہ کرتے ہوئے سہیل آفریدی کو نیا وزیر اعلیٰ نامزد کر دیا ہے۔ پارٹی رہنماؤں کے مطابق یہ فیصلہ نہ صرف آئینی تقاضوں کے مطابق ہے بلکہ پارٹی کے اندر گراس روٹ سطح سے قیادت کو اُبھارنے کی نئی روایت بھی قائم کرے گا۔

سہیل آفریدی — نئی قیادت کا چہرہ

سہیل آفریدی کا تعلق خیبر کے علاقے سے ہے، جو ماضی میں قبائلی علاقہ کہلاتا تھا۔ ان کی نامزدگی کو اس لیے بھی اہم قرار دیا جا رہا ہے کہ پہلی بار ضم شدہ اضلاع سے کسی رہنما کو صوبے کی وزارتِ اعلیٰ کے لیے منتخب کیا جا رہا ہے۔
پارٹی ذرائع کے مطابق پی ٹی آئی کے پاس اس وقت 92 ووٹ ہیں، اور سہیل آفریدی کے حق میں اکثریت حاصل کرنے کے لیے مزید اراکین سے رابطے کیے جا رہے ہیں۔

گنڈا پور حکومت کے بعد کی صورتحال

سابق وزیراعلیٰ علی امین گنڈا پور کے دور میں مختلف انتظامی اور مالی تنازعات نے صوبے کی سیاست کو غیر یقینی بنا دیا تھا۔ انہی دنوں میں سامنے آنے والا کوہستان اسکینڈل صوبے میں بڑے پیمانے پر مبینہ مالی بدعنوانی کے الزامات کا باعث بنا۔ رپورٹس کے مطابق تقریباً 30 سے 40 ارب روپے کے فنڈز مختلف منصوبوں کے نام پر مشکوک کھاتوں میں منتقل کیے گئے۔
گنڈا پور حکومت نے اس اسکینڈل کی تحقیقات کے احکامات جاری کیے تھے، تاہم سیاسی تبدیلیوں کے باعث یہ عمل تاحال سست روی کا شکار ہے۔

مالی اور انتظامی چیلنجز

خیبر پختونخوا میں مالی بحران بدستور ایک بڑا مسئلہ بنا ہوا ہے۔ صوبائی حکومت کے مشیرِ مالیات موزمل اسلم نے حالیہ بیان میں کہا کہ صوبہ اپنے مالیاتی ڈھانچے کو مستحکم کرنے کے لیے نئے ریونیو ذرائع تلاش کر رہا ہے۔
دوسری جانب وزیرِ زراعت محمد سجاد نے زرعی معیشت کو سہارا دینے کے لیے نئی اصلاحات کی تجویز دی ہے، جن پر عمل درآمد کا دارومدار آئندہ حکومت کی پالیسیوں پر ہوگا۔

وفاقی تعلقات اور امن و امان

وفاق اور صوبے کے درمیان تعلقات ایک بار پھر تناؤ کا شکار دکھائی دے رہے ہیں۔ پی ٹی آئی کی مرکزی قیادت کا مؤقف ہے کہ وفاقی حکومت خیبر پختونخوا کے وسائل اور سیکیورٹی معاملات میں بلاوجہ مداخلت کر رہی ہے۔
ادھر حالیہ دنوں میں دہشت گردی کے بڑھتے واقعات نے صوبے میں امن و امان کے خدشات کو جنم دیا ہے، جس پر عمران خان نے بھی ردعمل دیتے ہوئے کہا کہ “موجودہ حکمرانوں کی غلط پالیسیوں کے باعث خیبر پختونخوا میں دہشتگردی کی بدترین صورتحال پیدا ہو گئی ہے۔”

عوامی ردعمل اور سیاسی اثرات

صوبے کے عوام اس وقت نئی قیادت سے بہتر طرزِ حکمرانی اور امن و استحکام کی توقع کر رہے ہیں۔ تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ سہیل آفریدی کی نامزدگی اگر ایک مضبوط ٹیم اور شفاف حکمتِ عملی کے ساتھ آگے بڑھی، تو یہ فیصلہ صوبے کی سیاست میں مثبت موڑ ثابت ہو سکتا ہے۔

نتیجہ:
خیبر پختونخوا کی سیاست اس وقت ایک نازک مگر فیصلہ کن مرحلے میں داخل ہو چکی ہے۔ پی ٹی آئی کے لیے یہ موقع ہے کہ وہ اپنے بیانیے — “گراس روٹ سطح پر تبدیلی” — کو عملی شکل دے، تاکہ صوبے میں عوامی اعتماد بحال کیا جا سکے اور گورننس کے نئے معیار قائم کیے جا سکیں۔

تحریر -احمد خان

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں