0

سرحد کی گونج : د و قوموں کی دردناک کہانی

پاکستان اور افغانستان کے درمیان نازک سکون ایک بار پھر ٹوٹ گیا ہے۔ آج سرحدی علاقوں چمن اور اسپن بولدک میں ہونے والی جھڑپوں نے کئی بے گناہ جانیں نگل لیں۔ گولیاں چلنے کی آوازوں نے تجارت اور سفر کی امیدوں کو خاموش کر دیا ہے۔ افغانستان کے مطابق پاکستانی فضائی حملوں میں درجن سے زائد شہری جاں بحق ہوئے، جبکہ پاکستان کا مؤقف ہے کہ افغان سرزمین سے دہشت گرد داخل ہو کر حملے کر رہے ہیں۔ الزام تراشی کے اس شور میں، سب سے زیادہ زخمی انسانیت ہوئی ہے۔

“سرحدیں انسانوں نے بنائیں،
دکھ نے کبھی کوئی قوم نہیں پہچانی۔”

تجارت کے راستے بند ہو چکے ہیں۔ طورخم اور چمن جیسے دروازے خاموش کھڑے ہیں، جہاں کبھی قافلے اور مسافر گزر کرتے تھے۔ اب وہی راستے خوف اور آنسوؤں سے بھرے ہیں۔ دونوں ممالک امن کی بات کرتے ہیں، مگر ہر دھماکے کے بعد چھا جانے والی خاموشی ان باتوں سے زیادہ طاقتور لگتی ہے۔

سفارت کاری کی میز پر ہاتھ بڑھائے جاتے ہیں، مگر بندوقوں کی گونج ہر وعدے کو دبا دیتی ہے۔ عوام دونوں طرف امن کے لیے دعاگو ہیں، ان کے دل اب بھی امید رکھتے ہیں کہ ایک دن یہ جنگی فضا ختم ہوگی۔

“جب توپیں گرجتی ہیں، دل پھر بھی خواب دیکھتے ہیں،
ایسے سویروں کے، جہاں جنگ نہ ہو، خوف نہ ہو۔”

آج پاکستان اور افغانستان ایک نازک موڑ پر کھڑے ہیں۔ سوال یہ نہیں کہ غلطی کس کی ہے، بلکہ یہ ہے کہ کون اس نفرت کے سلسلے کو توڑے گا۔ امن سرحدوں سے نہیں، دلوں سے جنم لیتا ہے — اور شاید وہ دن قریب ہے جب نفرت کی دیواریں گر کر انسانیت کے پل بن جائیں۔

تحریر: زینت خان

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں