آج ایک بار پھر پاکستان کے سیاسی و سماجی منظرنامے پر تحریکِ لبیک پاکستان (TLP) کے احتجاج نے ہلچل مچا دی۔ لاہور سے اسلام آباد کی جانب نکلنے والا یہ مارچ، جو بظاہر فلسطینی عوام سے اظہارِ یکجہتی کے لیے تھا، جلد ہی ریاستی اداروں اور مظاہرین کے درمیان تصادم میں بدل گیا۔ نتیجتاً دو جانوں کے ضیاع اور درجنوں زخمیوں کی اطلاعات موصول ہوئیں۔
ریاست نے احتجاج سے قبل ہی صورتحال کی سنگینی بھانپ لی تھی۔ اسلام آباد اور راولپنڈی کی شاہراہیں بند، موبائل انٹرنیٹ معطل، اور سیکشن 144 نافذ کر کے حکام نے واضح پیغام دیا کہ سڑکوں پر مارچ کی اجازت نہیں دی جائے گی۔ مگر تحریکِ لبیک کے کارکنان اس بار کسی بھی رکاوٹ سے پیچھے ہٹنے کو تیار نہیں دکھائی دیے۔
یہ احتجاج اپنے اندر کئی پہلو رکھتا ہے۔ ایک طرف فلسطین کے حق میں عوامی جذبات ہیں، دوسری طرف ریاستی اتھارٹی کو چیلنج کرنے کا رجحان۔ یہی وہ نازک لکیر ہے جہاں سے پاکستان میں اکثر مذہبی تحریکیں سیاسی رنگ اختیار کر لیتی ہیں۔
تحریکِ لبیک کے رہنما سعد رضوی کی تقاریر میں جو لہجہ سننے کو ملا، وہ صرف فلسطین کے حق میں آواز نہیں بلکہ ریاستی پالیسیوں کے خلاف چیلنج کا بھی عکاس ہے۔ دوسری جانب حکومت اور قانون نافذ کرنے والے ادارے اپنی حکمتِ عملی میں واضح ہیں — ان کے نزدیک قانون کی عمل داری سب سے مقدم ہے۔
تاہم، زمینی حقیقت یہ ہے کہ جب ریاست طاقت کے استعمال کو اولین ترجیح بناتی ہے تو حالات بگڑنے کا خطرہ بڑھ جاتا ہے۔ انٹرنیٹ معطلی، راستوں کی بندش اور شہری زندگی کا مفلوج ہونا عوام میں بے چینی پیدا کرتا ہے۔ نتیجتاً نہ صرف احتجاج کرنے والے مشتعل ہوتے ہیں بلکہ عام شہری بھی ریاستی اقدامات سے نالاں دکھائی دیتے ہیں۔
یہ بھی حقیقت ہے کہ تحریکِ لبیک مذہبی جذبات کو سیاست سے جوڑنے میں ماہر ہو چکی ہے۔ ہر واقعے کو ایک نظریاتی جدوجہد کے طور پر پیش کر کے یہ جماعت عوامی ہمدردی حاصل کرتی ہے، جبکہ حکومت کو سخت موقف اختیار کرنا پڑتا ہے تاکہ اداروں کی رٹ قائم رہے۔
آج کے واقعے نے ایک بار پھر وہی سوال زندہ کر دیا ہے:
کیا ریاست عوامی مذہبی جذبات کو سمجھنے اور انہیں پرامن سیاسی اظہار کی راہ دینے میں ناکام ہو رہی ہے؟ یا پھر یہ مذہبی جماعتیں اپنے سیاسی مفاد کے لیے عوامی جذبات کا استعمال کر رہی ہیں؟
جواب شاید درمیانی راستے میں ہے — جہاں ریاست کو قانونی نظم کے ساتھ ساتھ سماجی رابطے کی پالیسی بھی اپنانا ہوگی۔ اگر طاقت کے استعمال کو ہی واحد حل سمجھا گیا تو نہ احتجاج رکیں گے، نہ بدامنی۔
تحریر: احمد خان